قمر آسی
قمر آسی

چاندی سے گردِ وقت نے گیسو جب اٹ دیے۔ قمر آسی

چاندی سے گردِ وقت نے گیسو جب اٹ دیے
اس نے برائے وصل مجھے کچھ منٹ دیے

کرنے دے آج اس کی زیارت، مخل نہ ہو
آ چاند کے نہ سامنے، آگے سے ہٹ دیے

پانی کی طرح بہہ گئی ہر آرزو مری
غربت نے خواہشات کے برتن الٹ دیے

مجھ پر امیرِ قدر نے کی مہربانی خوب
مانگا سکون میں نے تو آلام جھٹ دیے

آسائشاتِ دہر کا تھا جس میں تذکرہ
میں نے پڑھے بغیر وہ صفحے پلٹ دیے

پڑتی تھی ضرب شور سے وحشت کے خول پر
میں نے گلی میں کھیلتے بچے ڈپٹ دیے

کوئی نہ دستیاب ہوا جب دمِ وداع
دودِ کبابِ دل کے گلے سے لپٹ دیے

تجھ کو ہی وقتِ شام نہایت پسند تھا
تاریکیوں سے راضی خوشی اب نمٹ دیے

باقی تو زخم ٹھیک ہیں آسی پر اب تلک
موجود ہیں جو جان سے پیاروں نے کٹ دیے

قمر آسی

بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

ارکان ۔۔ مفعول ۔ فاعلات ۔۔ مفاعیل۔۔ فاعلن
ہندسی اوزان ۔۔ 122۔۔ 1212 ۔۔ 1221۔۔ 212
آخری رکن فاعلن 212 کی جگہ فاعلان 1212 بھی آ سکتا ہے

اشارات ِ تقطیع

چا دی سے ۔۔ 122 ۔۔ مفعول
گرد وقت ۔۔ 1212 ۔۔ فاعلات
نے گیسو ج ۔۔ 1221 ۔۔ مفاعیل
بٹ د یے ۔۔ 212 ۔ فاعلن ( جب اٹ دیے کی بجائے ج بٹ دیے باندھ کر الف وصل گرایا گیا ہے)

اس نے ب ۔۔122 ۔۔ مفعول
رائے وصل ۔۔ 1212 ۔۔ فاعلات
مجھے کچھ م ۔۔ 1221 ۔۔ مفاعیل
نٹ دیے ۔۔ فاعلان ۔۔ 212


یہ بھی پڑھیے

غزل مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ ۔ منظوم غزلیہ ترجمہ فاروق درویش

urdu poetry club
Zeen Subscribe
A customizable subscription slide-in box to promote your newsletter
[mc4wp_form id="314"]