گفتگو درد کی عالم کی زباں ٹھہرے گی
داستاں عشق کی مقتل کا بیاں ٹھہرے
شاہِ ست رنگ نے اک حشر سجایا ہے نیا
بندگی دہر کی اب حکم رواں ٹھہرے گی
شیخ و واعظ کا بیاں، فلسفہ ء عشقِ بتاں
شاعری دیر و کلیسا کی اذاں ٹھہرے گی
بے حجاب آج چلی لیلیٰ سوئے دشت جنوں
پارسائی کسی مجنوں کی کہاں ٹھہرے گی
جسم خوابوں کے بیاباں میں بھٹکتا ہو گا
روح قندیلِ محبت کا دھواں ٹھہرے گی
موم کا جسم کڑی دھوپ سہے گا کب تک
زلفِ جاناں کی گھٹا راحتِ جاں ٹھہرے گی
بوسہ دینے کو گلاب آئیں گے صحراؤں میں
آبلہ پائی کسے دل پہ گراں ٹھہرے گی
درد خاموش ہے درویش سمندر کی طرح
خامشی بن کے جنوں حشر فشاں ٹھہرے گی
فاروق درویش
بحر : بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
اراکین : ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعلُن
ہندسی اوزان : 2212 ۔۔2211 ۔۔2211 ۔۔22۔
اس بحر میں پہلے رکن یعنی فاعلاتن ( 2212 ) کی جگہ فعلاتن ( 2211 ) اور آخری رکن فعلن (22) کی جگہ , فعلان ( 122)، فَعِلن (211 ) اور فَعِلان (1211) بھی آ سکتا ہے۔ یوں اس بحر کی ایک ہی غزل میں درج کردہ یہ آٹھ اوزان استعمال کرنے کی عروضی سہولت یا گنجائش موجود ہے
۔1 ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فعلُن ۔۔۔ 2212 …2211 ..2211 … 22 ۔
۔2 ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلُن ۔۔2212 …2211 ….2211 …211 ۔
۔3 ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعلان۔۔2212 …2211 …2211 …122 ۔
۔4 ۔۔ فاعِلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلان 2212 …2211… 2211…1211۔
۔5 ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فعلُن ۔۔2211 …2211 ….2211 …22 ۔
۔6 ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فعلان۔۔2211…2211..2211…. 122 ۔
۔7 ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلُن۔۔2211 ..2211 …. 2211 … 211
۔8 ۔۔ فعلاتُن ۔۔ فَعِلاتُن۔۔ فَعِلاتُن ۔۔ فَعِلان۔۔2211…2211….2211…1211۔
اشارات برائے تقطیع
گف۔۔ ت ۔۔ گو ۔۔ در ۔۔ فاعلاتن ۔۔ 2212
د ۔ کی۔۔ عا ۔۔ لم ۔۔ فعلاتن ۔۔ 2211
کی ۔۔ ز۔۔ باں۔۔ ٹھہ ۔۔ فعلاتن ۔۔ 2211
رے ۔۔ گی۔۔ فعلن ۔ ۔22۔
دا ۔۔ س ۔۔تاں ۔۔عش۔۔ فاعلاتن ۔۔ 2212
ق ۔۔ کی۔۔ مق ۔۔ تل۔۔ فعلاتن ۔۔ 2211۔
کا ۔۔ ب۔۔ یاں۔۔ ٹھہ ۔۔ فعلاتن ۔۔ 2211
رے ۔۔ گی ۔۔۔ فعلان۔۔ 22۔
نوٹ: تیسرے، چوتھے شعر اور مقطع کے مصرع اول میں اوپر دی گئی عروضی سہولت نمبر 2 کے تحت آخری فعلن ( 2.2) کی بجائے فَعِلن ۔(2.1.1۔۔) باندھا گیا ہے۔
اصولِ تقطیع
یاد رکھئے کہ ” کیا” اور “کیوں” کو دو حرفی یعنی “کا” اور “کوں ” کے وزن پر باندھا جائے گا ۔ ہے، ہیں، میں، وہ، جو، تھا، تھے، کو، کے ، تے ، رے اور ء جیسے الفاظ دو حرفی وزن پر بھی درست ہیں اور انہیں ایک حرفی وزن میں باندھنا بھی درست ہیں ۔ لہذا ان جیسے الفاظ کیلئے مصرع میں ان کے مقام پر بحر میں جس وزن کی سہولت دستیاب ہو وہ درست ہو گا ۔
ایسے ہی “ے” یا “ی” یا “ہ” پر ختم ہونے والے الفاظ کے ان اختتامی حروف کو گرایا جا سکتا ہے ۔ یعنی جن الفاظ کے آخر میں جے ، گے، سے، کھے، دے، کھی، نی، تی، جہ، طہ، رہ وغیرہ ہو ان میں ے، ی یا ہ کو گرا کر انہیں یک حرفی وزن پر باندھنا بھی درست ہو گا اور اگر دوحرفی وزن دستیاب ہو تو دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی لفظ کے اختتامی حرف کے نیچے زیر ہو اسے دو حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے اور یک حرفی وزن پر بھی باندھا جا سکتا ہے۔ ( مثال : دشت یا وصال کے ت یا لام کے نیچے زیر کی صورت میں انہیں دشتے اور وصالے پڑھا جائے گا ۔ ایسے الفاظ کی اختتامی ت یا لام کو بحر میں دستیاب وزن کے مطابق یک حرفی یا دو حرفی باندھنے کی دونوں صورتیں درست ہوں گی ) ۔
تقطیع کرتے ہوئے یہ بات دھیان میں رہے کہ نون غنہ اور ھ تقطیع میں شمار نہیں کئے جائیں گے یعنی تقطیع کرتے ہوئے ، صحراؤں کو صحراؤ ، میاں کو میا، خوں کو خو، کہیں کو کہی ۔ پتھر کو پتر اور چھیڑے کو چیڑے پڑھا جائے گا
فاروق درویش