سرِ حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی
کلام بھی نہ جیا اور مر گئے ہم بھی
یہ عہد ایک مسیحا نفَس میں زندہ تھا
رہا نہ وہ بھی سلامت، بکھر گئے ہم بھی
چمک اُٹھا تھا وہ چہرہ، دھڑک اُٹھا تھا یہ دل
نہ اُس نے راستہ بدلا، نہ گھر گئے ہم بھی
بتوں کی طرح کھڑے تھے ہم اک دوراہے پر
رُخ اُس نے پھیر لیا، چشمِ تر گئے ہم بھی
کچھ ایسے زور سے کڑکا فراق کا بادل
لرز اُٹھا کوئی پہلو میں، ڈر گئے ہم بھی
جدائی میں بھی ہم اک دوسرے کے ساتھ رہے
کڈھب رہا نہ وہ، خالد سنور گئے ہم بھی
خالد احمد
بحر – بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان 122، فَعِلُن 211 اور فَعِلان 1211 بھی آ سکتے ہیں۔
ہندسی نظام – 2121 / 2211 / 2121 / 22
تقطیع
سرِ حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی
کلام بھی نہ جیا اور مر گئے ہم بھی
سرے حیا – مفاعلن – 2121
ت اِ کل زا – فعلاتن – 2211 اک اور الزام میں الف وصل گرایا گیا ہے۔
م در گئے – مفاعلن – 2121
ہم بی -فعلن – 22
کلام بی – مفاعلن – 2121
نَ جیا او – فعلاتن – 2211
ر مر گئے – مفاعلن – 2121
ہم بی – فعلن – 22