طاق پر جو دھرا تھا دیا جل بجھا آنکھ میں جھلملاتا ستارا نہ تھا
ہم نے چپ سادھ لی ،سی لیے ہم نے لب،دل کو شکووں سے اب کوئی یارا نہ تھا
وقتِ رخصت تمہارا ہی اصرار تھا میرا رونا عجب کار بے کار تھا
آنکھ نم ہوگئی اور قدم رک گئے تب بھی واللہ تم کو پکارا نہ تھا
شاذ وصلت کے ہر ایک ہنگام سے ہم تھے واقف محبت کے انجام سے
میرے سینے کی ڈھیری میں مدفون ہے اک پری رو کبھی جو ہمارا نہ تھا
لوگ چلتے تھے زادِ سفر دیکھ کر ہم چلے تھے تو صحرا کو گھر دیکھ کر
اس سفر میں سنو گرد بادوں سوا اپنا سایا ہی تھا کوئی پیارا نہ تھا
شہر خوباں کی اپنی ہی تہذیب تھی جس پہ اترے جنوں کے صحیفے کئی
نقش پائے بلالی سوا ایک بھی اپنی فطرت کو لیکن گوارا نہ تھا
تلخئی ہجر کا شاخسانہ ہی تھا نام تیرا لیا غش تو آنا ہی تھا
کاٹ کھائے ہے شہرِ نگاراں بہت اب کہ ہجرت سوا کوئی چارا نہ تھا
مبین حطام
بحر ۔ فاعلن( 212) آٹھ بار دہرایا گیا ہے
فاعلن۔۔ فاعلن۔۔فاعل۔۔۔فاعلن۔۔فاعلن۔۔فاعلن۔۔فاعلن۔۔فاعلن
212ہندسی اوزان ۔212۔۔212۔۔212۔۔212۔۔212۔۔212۔۔212۔۔
اصول ِتقطیع
طاق پر جو دھرا تھا دیا جل بجھا آنکھ میں جھلملاتا ستارا نہ تھا
طاق پر ۔۔ فاعلن۔۔212
جو دھرا ۔۔ فاعلن۔۔212
تھا دیا ۔۔ فاعلن ۔۔ 212
جل بھجا ۔۔ فاعلن۔۔212
آنکھ میں ۔۔ فاعلن ۔۔212
جھل ملا ۔۔ فاعلن ۔۔ 212
تا ستا ۔۔ فاعلن ۔۔ 212
رہ نہ تھا ۔۔ فاعلن ۔۔212